دل میں جگہ: میں لوگوں کے خیالات سے واقف ہوجاتی ہوں‘ مجھے پتہ چل جاتا ہے کہ سامنے والا کیا کچھ سوچ رہا ہے‘ کوئی رشتہ دار گھر آئے یا ہم لوگ کہیں جائیں تو میں سچی بات منہ پر کہہ ڈالتی ہوں یہ کسی کو برداشت نہیں ہوتی۔ مثلاً ہم لوگ اپنی بہن کی منگنی کی مٹھائی دینے گئے تو کئی ملنے والوں نے لڑکے کے بارے میں مختلف قسم کے سوالات کیے۔ میں نے سمجھ لیا کہ یہ سب حسد کرنے والے لوگ ہیں۔ بہن نے بھی میری بات کا یقین کیا۔ ایک بات جو اب میں محسوس کررہی ہوں وہ یہ ہے کہ میری سہیلیاں ساتھ چھوڑتی جارہی ہیں۔ خاندان کے لوگ بھی میری طرف دیکھ کر منہ بنا لیتے ہیں۔ (غ، سیالکوٹ)
مشورہ: کوئی انسان کسی دوسرے انسان کے دل کا حال نہیں جان سکتا۔ آپ نے جو اپنے بارے میں بیان کیا ہے وہ محض چہرے کے تاثرات دیکھ کر اندازہ لگانے والی بات ہے۔ یہ غلط بھی ہوسکتی ہے اسی لیے لوگ بُرا مان جاتے ہیں۔ اچھے تعلقات بنانا مشکل کام ہے۔ کھری کھری سنا کر اختلاف رائے پیدا کرلینا کوئی خوبی نہیں۔ حسد پر آپ خاموش رہیں بلکہ اگر کوئی تکلیف پہنچانے والی بات کہے بھی تو درگزر کردیں۔ دلوں میں جگہ بنانے کیلئے خود کو بہت زیادہ بدلنا ہوگا۔
ناکام اور ٹھکرایا ہوا لڑکا: میری منگنی پسند سے ہوئی تھی‘ ہم دونوں نے ساتھ رہنے کا وعدہ کیا تھا لیکن لڑکی مجھ سے کہتی تھی کہ میں ملک سے باہر چلا جاؤں‘ مگر یہ میرے بس میں نہ تھا۔ اس کا کزن کینیڈا چلا گیا تو اس نے مجھ سے منگنی ختم کرکے اُس سے نکاح کرلیا۔ مجھے یوں لگا جیسے پوری دنیا مجھ پر ہنس رہی ہے۔ لڑکی سے تو نفرت ہوہی گئی اپنا آپ بھی بُرا لگنے لگا۔ میں ایک ناکام اور ٹھکرایا ہوا لڑکا ہوں۔ (کاشف‘ کراچی)
مشورہ: منگنی ختم ہونے کا مطلب زندگی میں ناکام ہونا ہرگز نہیں ہے۔ ذہنی پریشانی بڑھتی ہوئی محسوس ہو تو اپنے آپ سے اچھی بات کریں۔ تسلی نہ ہو تب بھی اچھے خیالات ذہن میں لانے نہ چھوڑیں۔ اگر کمرے میں کوئی نہ ہو تو آواز کے ساتھ اور اگر لوگوں میں موجود ہوں تو دل ہی دل میں دہرائیں۔ ’’میں اب بھی بہترین خوبیوں اور صلاحیتوں کا مالک ہوں۔ میں کوشش جاری رکھوں گا۔ اپنے ملک میں بہت سے لوگ کامیاب اور بہترین زندگی گزار رہے ہیں۔ قسمت میں ہوا تو ملک سے باہر بھی چلا جاؤں گا۔‘‘
وہ کسی اور کو پسند کرتا ہے: ایک روز میری دوست گھبرائی ہوئی آئی اور کہنے لگی اس کا شوہر دشمن ہوگیا ہے وہ کسی اور کو پسند کررہا ہے۔ اس لیے چاہتا ہے کہ مجھے جان سے مار ڈالے۔ میں نے اس کو فون پر کسی سے چپکے چپکے باتیں کرتے دیکھا ہے۔ میں پہلے تو اس کی ساری گفتگو سن کر سکتے میں آگئی۔ چند لمحوں تک کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ پھر اس کے گھر فون کیا تو بہن کہنے لگی کہ ہم اس کی باتوں پر بہت پریشان ہیں ایسا کچھ بھی نہیں جو وہ کہہ رہی ہے۔ اس کے شوہر تو بہت اچھے ہیں۔ خواہ مخواہ شک کرتی ہے۔ وہ بیچارے تو خود اس کی باتوں پر پریشان ہیں‘ میں سوچ رہی ہوں یہ سب کیسے ہوگیا؟ (مائرہ واجد‘ لاہور)
مشورہ: دوستوں‘رشتہ داروں اور اہل خانہ کیلئے انسان بہت حساس ہوتا ہے اسی لیے ان کی باتوں پر فوراً یقین بھی آجاتا ہے۔ کوئی بات برداشت سے بڑھ جائے اور گھر کا ماحول خراب ہونے کے ساتھ تعلقات بھی بگڑنے لگیں‘ رشتہ ٹوٹنے کا ڈر ہو تب غیرحقیقی باتوں پر بے حد پریشانی ہوتی ہے۔ دوست خواہ مخواہ شک نہیں کررہی بلکہ اس کی ذہنی صحت متاثر ہوئی ہے۔ شک و شبہ‘ بدگمانی‘ غصہ‘ بے جا خوف یہ سب ذہنی مرض کی علامات ہیں۔
بے حد پریشان ہوں: میرے بچے ایک اچھے سکول میں پڑھتے ہیں۔ بیٹے کے مسئلے پر فکرمند ہوں‘ اس کو ٹیچر کی ذرا سی بات برداشت نہیں۔ وہ ایک تھپڑ ماردیں تو بچے کا پیشاب نکل جاتا ہے۔ اپنی کرسی پر گر جاتا ہے تقریباً بے ہوشی طاری ہوجاتی ہے۔ مجھے اس کی کیفیت کا علم نہ ہوتا لیکن ایک روز اس کے والد نے غصے میں آکر اسے دھکا دیا جس پر وہ دیوار سے ٹکڑایا اور اس کی آنکھیں اوپر کو چڑھ گئیں۔ چندمنٹ بیہوشی طاری رہی۔ جب میں اس کوڈاکٹر کے پاس لے کر گئی تو وہ بہتر ہوچکا تھا اس کی حالت پر میں بے حد پریشان ہوں۔ (ام اویس‘ پشاور)
مشورہ: بچے کو تھپڑ مارنا‘ دھکا دے دینا‘ اسے جسمانی یا ذہنی اذیت پہنچانا بڑوں کی سنگین غلطی ہے۔ بیٹے کا طبی اور نفسیاتی معائنہ ضروری ہے کیونکہ بے ہوشی اور آنکھوں کا اوپر چڑھ جانا‘ اس کے ساتھ پیشاب نکلنا وغیرہ ظاہر کررہا ہے کہ اس کو دورہ پڑجاتا ہے۔ ویسے تو اس بیماری کی بہت سی اقسام ہیں‘ اور کئی روپ بھی لیں لیکن آپ نے بچے کی کیفیت سے ظاہر ہورہا ہے کہ بچپن میں اس کے دماغ پر چوٹ آئی ہے یا پیدائش سے پہلے کوئی مسئلہ رہا ہے۔ اب اس کے ساتھ سزا اورسختی والا سلوک نہ کریں بلکہ نرمی اور محبت سے تربیت اور اصلاح ہونی چاہیے۔
بھائی کی شادی: ہمارے بھائی کی شادی ایک خاتون نے بہت امیر لوگوں میں کروائی۔ ہم خود حیران تھے کہ ان لوگوں نے یہ رشتہ کس طرح قبول کرلیا؟ لڑکی شادی سے پہلے سے خاموش تھی۔ بھائی بھی پریشان تھے کہ اتنے بڑے لوگوں میں وہ کس طرح ملیں جُلیں گے۔ بہرحال جو ہونا ہوتا ہے ہو کر رہتا ہے۔ اب بھابی اپنے گھر جاچکی ہیں وہ پہلے دن سے روتی رہتی تھیں‘ بھائی سے بات نہیں کرتیں‘ خود کو کمرے میں بند رکھتیں۔ ان کے والدین رابطہ کررہے ہیں کہ ہم لوگ ان سے ملیں اور لڑکی کو اپنے گھر لے آئیں۔ امی بھی پریشان ہیں کہ یہ سب کیا ہوا؟ بھائی کہتےہ یں انہوں نے بھابی کو کچھ نہیں کہا۔ شاید وہ ان کو اچھے نہیں لگتے یا ان کو ہمارا یہ چھوٹا سا گھر پسند نہیں آیا۔ (ریحانہ‘ لاہور)
مشورہ: یہاں میاں اوربیوی میں فاصلہ‘ امیری یا غریبی کے سبب معلوم نہیں ہورہا بلکہ لڑکی نفسیاتی مرض کا شکار معلوم ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے گھر والے آپ لوگوں سے رابطہ کرنا چاہتے ہیں۔ بھائی کو بھی ان سے ملنا چاہیے اور معلوم کریں کہ لڑکی کو سسرال میں رہنے میں کیا پریشانی ہے؟ ہوسکتا ہے کہ اب ان لوگوں نے اس کا علاج کروا لیا ہو۔ اگر لڑکی کو ڈیپریشن ہے تو یہ قابل علاج مرض ہے۔ یہ لوگ اس قدر ٹھیک ہوجاتے ہیں کہ ان کے ساتھ معمول کے مطابق زندگی گزاری جاسکتی ہے۔ بہتر تو یہ ہوتا ہے کہ شادی سے پہلے ہی نفسیاتی یا جسمانی مرض کا شکارلڑکے یا لڑکی کا علاج کروالیا جائے کیونکہ شادی کی کامیابی کیلئے پہلی شرط زوجین کا ہوش و حواس میں ہونا ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں